Thursday, August 1, 2013

فیضہ پورن۔۔۔۔۔ ابتدائی تعارف

فیضہ پورن
صوبہ خیبر  پختونخوا کے شمالی اضلاع پر مشتمل ملاکنڈ ڈویژن کا علاقہ بلندوبالا پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ ضلع سوات کے مشرق میں دریائے سندھ تک کا پہاڑی علاقہ انتظامی طور پر ضلع شانگلہ میں شامل ہے۔ فیضہ کی خوب صورت بستی اسی ضلع شانگلہ کی تحصیل پورن کے ایک پہاڑ پر واقع ہے، ارد گرد کے دیگر پہاڑوں کے برعکس جس پہاڑ پر فیضہ سمیت دیگر چھوٹی چھوٹی بستیاں واقع ہیں، اس کی سطح بہت کم ڈھلواں ہے اور دور سے دیکھنے پر یہ علاقہ پہاڑ کے بجائے دھیرے دھیرے اوپر کو اٹھی ہوئی ناہموار زمین لگتا ہے۔
                فیضہ کا نام ماضی میں "پیزہ" تھا جو مقامی بولی میں بلند اور لمبی چٹانی ابھار یا  ٹیلے کو کہا جاتا ہے۔ شانگلہ بھر میں ہر پہاڑ کے اطراف میں اس طرح کی لمبی پہاڑیاں نکلی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج شانگلہ میں درجنوں "فیضے" موجود ہیں۔ "پیزہ" سے "فیضہ" میں نام کی تبدیلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نام یہاں کی علمی اور روحانی شخصیت "فیضے بابا" نے دیا تھا کیوں کہ اڑھائی سو سال پہلے یہ جگہ ایک علمی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی اور دور دراز سے لوگ یہاں علم سے فیض یاب ہونے کے لیے آیا کرتے تھے۔ یوں بھی "پیزہ" کی نسبت "فیضہ" کا نام زیادہ خوبصورت ہے۔ چنانچہ آج شانگلہ کے تمام "پیزے"۔۔۔۔۔۔" فیضے'' بن چکے ہیں۔
                فیضہ کے شمال میں دور دور تک بکھرے ہوئے مکانات پر مشتمل "شواڑ" کی بستی واقع ہے جس کے حدود پہاڑ کی چوٹی تک جا پہنچتے ہیں۔ مغرب اور جنوب مغرب میں "کیوا" اور "آلہ گرام" کا وسیع و عریض علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں موضع دکن ہے جو پہاڑ کی اترائی میں "گانوڑی" نامی گاؤں سے متصل ہے۔ فیضہ کے مشرق میں "مکڑا " کا گاؤں واقع ہے۔چونکہ یہ ساری چھوٹی بڑی بستیاں ایک ہی پہاڑ کا حصہ ہیں ، اس لیے عموما اس پہاڑی علاقے سے باہر دیگر مقامات پر لوگ ان سب دیہات کو مجموعی طور پر فیضہ ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
                فیضہ اپنی تعلیم کے لیے مشہور ہے۔ یہاں پر آبادی کی اکثریت پڑھی لکھی ہے جبکہ نوجوان نسل میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہاں کے درجنوں طلباء مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔اپنی ذہانت، قابلیت اور حصولِ علم کے لگن کی بناء پر مقامی تعلیمی اداروں میں عموما یہ آگے رہتے ہیں۔ اسی علم و ہنر اور بہترین صلاحیتوں کے بل بوتے پر یہاں کے جوانوں کی اکثریت نے سرکاری ملازمتیں حاصل کر رکھی ہیں۔
                                فیضہ  کی شہرت بالخصوص یہاں کے مرحوم "فیضے مولوی صاحب" کی وجہ سے ہے جو علاقے کی مشہور علمی اور دینی شخصیت  تھے۔ وہ فیضے باباؒ کے پوتے تھے جنہوں نے یہ خوبصورت بستی قائم کی تھی۔ فیضے مولوی صاحب دہلی کی جامعہ امینیہ سے فارغ تھے۔ وہ پورن کے اولین تعلیمی ادارے گورنمنٹ ہائی سکول پورن میں معلم تھے۔ انہوں نے جامع مسجد فیضہ میں چالیس سال سے زائد عرصہ تک امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیے۔ جامع مسجد فیضہ ہی میں انہوں نے 7 اپریل 2006 کو نمازِ جمعہ کے موقع پر سر بسجود حالت میں رحلت فرمائی تھی۔
                فیضہ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں نئے مکانات کی تعمیر ، قبروں کی کھدائی یا کھیتوں میں کام کرنے کے دوران مٹی کی دبیز تہوں کے نیچے سے مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے اور نقش و نگار پر مشتمل پتھروں کے ٹکڑے عام ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی بعید میں بھی یہاں پر کئی صدیوں تک کسی قوم کے لوگوں نے بود و باش اختیار کر رکھی تھی جو غالباًبیرونی حملہ آوروں کی آمد کے بعد یا تو ان سے لڑتے ہوئے مارے گئے یا پھر یہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پورن ہی نہیں شانگلہ بھر میں جتنے بھی قبیلے اور خاندان آباد ہیں ، ان سب کے آباء و اجداد کئی سو سال پہلے باہر سے آکر یہاں پر قانض ہو گئے تھے۔ تاہم تاریخ میں "ڈُوما" نامی منگول نسل کی قوم کا نام ضرور ملتاہے جو بونیر کے شمال میں واقع ان پہاڑی سلسلوں میں آباد تھی جن پر آج کا ضلع شانگلہ اور  (ضلع بونیر کا علاقہ) چغرزئی مشتمل ہے۔سوات سے پورن اور مارتونگ وغیرہ پر چڑھائی کرنے والے یوسفزئی پشتونوں کی ذیلی شاخوں بابوزئی اور عزی خیل قبیلے کے لوگوں کا سامنا اسی "ڈُوما" قوم سے ہوا تھا۔ اسی طرح پورن پر قبضہ کرنے کے بعد بابوزئی پٹھانوں کے خاندانوں نے پہاڑوں کے بیچ گہرائی میں موجود تنگ گھاٹیوں کو آباد کرنے کو ترجیح دی جن سے سندوی، سنیلہ، چاگم، بینگلئی اور آلوچ وغیرہ کے گاؤں سامنے آئے۔ وسیع و عریض پہاڑی سلسلوں کوبعد ازاں باہر سے آنے والے دیگر لوگوں نے از سرِ نو آباد کیا اور ان سب کی اکثریت نسلاً پشتون ہی تھی تاہم چند ایک مقامات پر گوجر برادری کے لوگ بھی آباد ہیں جن کی نئی نسل آج صرف ایک ہی زبان پشتو بولتی ہے۔ فیضہ کی زیادہ تر آبادی پشتون قبیلوںمیر خیل، یوسفزئی، مندڑ اور عزی خیل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ چند گوجر اور سادات گھرانے بھی آباد ہیں۔
                تعلیم:فیضہ اپنی تعلیم کی بنا پر مشہور ہے۔ جامع مسجد فیضہ یہاں کی اولین علمی درسگاہ تھی جہاں پر علاقے کی معروف دینی، علمی اور روحانی شخصیت فیضے باباؒ نہ صرف مقامی لوگوں کو علم کی روشنی سے فیضیاب کرانے کے لیے کوشاں تھے بلکہ حصولِ علم کے شوق میں دور دراز سے آنےو الوں کی رہائش کے  لیے اقامت گاہ بھی قائم کر رکھی تھی۔ گورنمنٹ پرائمری سکول فیضہ کی بنیاد اسی ادارے سے پھوٹی اور جامع مسجد فیضہ ہی میں اس کی ابتدائی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ بعد ازاں اس  ادارے نے مکتب سکول سے بتدریج پرائمری سکول، مڈل سکول اور پھر ہائی سکول کا درجہ حاصل کیا۔ سکول کا موجودہ محلِ وقوع فیضہ کے شمال میں شواڑ کے حدود میں ہے۔ اس سکول سے سینکڑوں طلباء فارغ ہوئے جن میں سے بہت سوں نے اپنے اپنے شعبوں میں اپنی قابلیت ا ور صلاحیتوں کے ذریعے ترقی کی اور اپنے  اسکول اور علاقے کا نام روشن کیا۔ گورنمنٹ ڈگری کالج پورن کے پرنسپل پروفیسر ہارون الرشید  بھی فیضہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ ہائی سکول فیضہ کی موجودہ عمارت صرف دو کمروں پر مشتمل ہے  جو کہ اس پورے علاقے کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔ 2005ء کے تباہ کن زلزلے میں سکول کی عمارت کا ایک بڑا حصہ منہدم ہو کر بکھر گیا تھا، بعدازاں نئی عمارت کی تعمیر کے لیے باقی ماندہ دو تین کمروں پر مشتمل عمارت بھی گرا دی گئی جو آج تک سر نہ اُٹھا سکی۔ فنڈز کے خاتمے یا منتقلی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سکول کے احاطے میں چند خیمے لگے ہوئے ہیں جو سردیوں میں برفباری کے طوفان میں زمیں بوس ہو جاتے ہیں تو گرمیوں میں بچوں کے  لیے تنور بن جاتے ہیں اور بعدازاں برسات کی بارشیں ان کو بہا لے جاتی ہیں۔
                ثانوی سطح کے طلباء کی اکثریت گورنمنٹ ہائی سکول فیضہ میں پڑھتی ہےجبکہ ابتدائی سطح کے طلباء کی کچھ تعداد 7،6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پرائیویٹ اسکولوں میں جاتی ہے۔
                صحت:فیضہ میں کوئی سرکاری ہسپتال یا ڈسپنسری نہیں جو کہ علاقے کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ نزدیک ترین ہسپتال بیسک ہیلتھ یونٹ ٹووا ہے۔ فوری علاج معالجے کے لیے لوگ مقامی طور پر نجی حیثیت سے میڈیکل پریکٹس کرنے والے ڈسپنسروں کے پاس جاتے ہیں۔ مرکزی قصبے سے دورعلاقے  کے لوگوں کے لیے جہاں ذرائع آمدورفت عام طور پر دستیاب نہیں ہوتے، ان "ڈاکٹر حضرات" کی موجودگی بڑی غنیمت کی بات ہے۔یہ ڈاکٹر لوگ عموماً دوروں پر ہوتے ہیں کیونکہ اکثر و بیشتر بیماروں کو طبی خدمات فراہم کرنے کے لیےانہیں ان کے گھر تک جانا پڑتا ہے۔
                زراعت: فیضہ اور گردونواح کی ساری قابلِ کاشت اراضی بارانی ہے۔ لوگوں کو فصلوں کی آبیاری کے لیے بس بارشوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ البتہ دھان کے کھیتوں تک ندی نالوں کا پانی پہنچایا جاتا ہے۔ ان ندی نالوں کا پانی پہاڑ پر جابجا موجود چشموں سے پھوٹتا ہے۔  دو ہی غذائی اجناس گندم اور مکئی  یہاں کی اہم پیداوار ہیں۔پہاڑی نالوں کے نزدیک زمیں کے چھوٹے قطعوں پر چاول بھی کاشت کی جاتی ہے۔باغبانی کے شوقین لوگ گھروں کے اندر اور آس پاس چھوٹے چھوٹے کھلیانوں میں سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کی کاشت کیا کرتے ہیں۔
                فیضہ میں باقاعدہ طور پر پھلوں کے باغ لگانے کا رجحان بہت کم ہے۔ البتہ مختلف قسم کے پھلوں کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں انجیر، آڑو، توت سیاہ، توت سفید، خوبانی، آلوچہ، املوک سیاہ، املوک کلاں اور ناشپاتی وغیرہ شامل ہیں۔ ننھے ننھے میٹھے پھلوںمشتمل کانٹوں بھری  جنگلی جھاڑیاں تو ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔
                لوگ دودھ کے لیے گائے اور بھینس پالتے ہیں۔ بکریاں تو اکثر گھروں  میں پالی جاتی ہیں۔ تقریباً ہر گھر میں مرغیاں  پا لی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ تیتر اور بطخیں بھی پالتے ہیں۔ کبوتر بازی کے شوقین بھی پائے جاتے ہیں۔ مغرب میں ذہانت اور مشرق میں حماقت کی علامت اُلّو بھی یہاں کے بلندو بالا درختوں پر بسیرا کرتا ہے۔ دیگر پرندوں میں چڑیا، مینا، بلبل، ابابیل، کوّا،ہدہد اور مقامی طور پر تورنقہ، تارو، چتے ، سُوڑے اور ٹیغک کہلائے جانے والے پرندے شامل ہیں۔
                دسمبر، جنوری اور فروری کے علاوہ باقی مہینوں میں یہاں سال بھر میں موسم عموماً خوشگوار رہتا ہے۔ ان تین مہینوں میں سخت سردی پڑتی ہے۔ کئی مرتبہ برفباری بھی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں سارا علاقہ سفید پڑ جاتا ہے۔
                درختوں سے ڈھکا ہوا فیضہ کا علاقہ سال کے بیشتر مہینوں میں دور سے دیکھنے پر ایک سرسبزو شاداب جنگل دکھائی دیتا ہے مگر جب اس"جنگل" میں داخل ہو جائیں تو پھر واپس نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہاں کی صاف ہوا، پُرسکون ماحول، جنگلی پھولوں کی میٹھی میٹھی بھینی بھینی خوشبوسے مہکتی فضا، رنگین اور خوشنما پھولوں کے نظارے ،صاف و شفاف پانی کے چشمے اور نالےسرِ راہ گزرنے والے کا دل کھینچ لیتے ہیں۔ گاڑیوں، کارخانوں اور قسم قسم کی مشینوں وغیرہ کے شور  سے پاک فضا میں بس پرندوں کے میٹھے نغمے اور کسی نزدیکی ندی نالے میں جھر جھر گرتے پانی کی آوازیں ہی سننے کو ملتی ہیں۔پہاڑ کی بلندی پر واقع بستی سے  دور دور حدِّ نگاہ تک نظر آنے والے پہاڑی ڈھلوانوں ، پہاڑیوں میں آبادبستیوں اور جنگلوں کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔پس یہاں کے لوگ  فیضہ کو اپنی جنت سمجھتے ہیں، اس سے پیار کرتے ہیں اور اس پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔
 


No comments:

Post a Comment